مرے دل سے کیوں
*غزل*
مرے دل سے کیوں تجھ کو نفرت ہے پیارے
یہاں نقش تیری ہی صورت ہے پیارے
ہے دنیا پہ رونا گناہِ کبیرہ
صنم تجھ پہ رونا عبادت ہے پیارے
تمہیں غصہ کرنے سے فرصت نہیں ہے
مجھے پیار کرنے کی عادت ہے پیارے
کسی سنگ دل سے محبت ہے مجھ کو
یہی ایک سنگِ ملامت ہے پیارے
تباہی جہانِ دل و جاں میں دیکھی
ترا سرو قامت قیامت ہے پیارے
جفا ان کی کچھ رنگ لا کر رہے گی
وفا اب تلک تو سلامت ہے پیارے
برہمن کو مذہب سے کیوں روکتے ہو
کہ بوسہ بتوں کا عبادت ہے پیارے
خطا ہو گئی ہے خطا بخش دینا
ہے بات اس طرح ، تجھ سے الفت ہے پیاری
فرشتہ نہیں ہوں میں فضلِ خدا سے
گنہ سے مراد اس کی رحمت ہے پیاری
سزا عشق کی کیوں ہے جاری ابھی تک
مجھے اس خطا پر ندامت ہے پیارے
کب آتی تھی گردوں تجھے ایسی گردش
پتہ ہے یہ کس کی شرارت ہے پیارے
اے غافل اجاڑو نہ دل کی ریاست
یہاں پر تری ہی حکومت ہے پیارے
سمجھتے نہیں تم رقیبوں کی چالیں
وہاں اشک میں بھی ملاوٹ ہے پیارے
اے توبہ یہ آب و ہوا کا بدلنا
تجھے بھولنے کی علامت ہے پیارے
تہی لب نہ میرے خرابے پر آنا
مجھے ریختے سے عقیدت ہے پیارے
ستم گر نے اپنی کمر کس کے باندھی
بس اے رند اب تیری شامت ہے پیارے